1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتیورپ

مغربی پابندیوں کے بعد چین اور بھارت روسی تیل کے بڑے خریدار

27 دسمبر 2023

بھارت روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل خریدنے کے بعد اسے اپنے ہاں ریفائن کر کے یورپی ممالک کو فروخت کر رہا ہے۔ روسی تیل کی برآمدات میں چین کا حصہ 45 سے 50 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/4accg
Russland | Tatneft produziert Öl in Tatarstan
تصویر: Yegor Aleyev/TASS/dpa/picture alliance

 روس نےمغربی پابندیوں کے باعث اپنے تیل کی برآمدات کا رخ چین اور بھارت کی طرف موڑ دیا ہے۔ روسی نائب وزیر اعظم الیکسانڈر نوواک نے بدھ کے روز کہا ہے کہ یوکرین کے تنازع  کی وجہ سے ماسکو پر مغربی پابندیوں کی زد میں آنے کے تقریباً دو سال بعد روس نے اپنی زیادہ تر تیل کی برآمدات کا بڑا حصہ اب یورپ کی بجائے چین اور بھارت کی  کر دیا ہے ۔

 فروری 2022 میں صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے یوکرین میں فوج بھیجے جانے کے بعد مغربی ممالک نے روس پر متعدد پابندیاں عائد کر دی تھیں، انہی میں یورپی یونین کی جانب سے روسی تیل کی سمندر کے راستے ترسیل پر پابندی بھی شامل ہے۔

Indien Guwahati Raffinerie
بھارت روسی خام تیل کو اپنے ہاں سے ریفائن کرنے کے بعد یورپی ممالک کو فروخت کر رہا ہےتصویر: BIJU BORO/AFP

ماسکو کی توانائی پالیسی کے سربراہ الیکسانڈر نوواک نے کہا کہ یوکرینی تنازعے سے قبل روس اپنی تیل کی کل پیداوار کا 40 سے 45 فیصد تیل اور پٹرولیم مصنوعات یورپی یونین کو فراہم کرتا تھا۔ نوواک نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا، "توقع کے مطابق روس سے اس سال یورپ کو تیل کی مجموعی برآمدات صرف چار سے پانچ فیصد تک رہ جائیں گی۔‘‘ ماسکو کا چین سمیت دیگر خریداروں کی طرف متوجہ ہونے کا سلسلہ یورپ میں روسی تیل کی برآمدات میں کمی کے بعد ہوا۔

 نوواک نے کہا، " روسی تیل کی برآمدات میں چین کا حصہ 45 سے 50 فیصد تک بڑھنے کے ساتھ ہی بھارت بھی روس کا اہم شراکت دار بننے میں کامیاب ہو گیا ہے۔‘‘روس کی جانب سے گزشتہ دو سال میں بھارت کو تیل کی سپلائی میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘ اطلاعات کے مطابق بھارت روس سے رعایتی خام تیل لینے میں کامیاب رہا ہے، جسے وہ اپنے ملک میں ریفائن کرنے کے بعد یورپی ممالک کے صارفین کو فروخت کر رہا ہے۔

اگرچہ اس طریقے سے تیل کی فروخت قانونی ہے تاہم  ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ روس کی جانب سے یورپی مملک کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں سے بچنے کے لئے عقبی دروازے کا استعمال ہے تا کہ پابندیوں کے اثرات کو کمزور کیا جا سکے۔ روس نے جہاں حال ہی میں پابندیوں کے باعث اپنی قدرتی گیس کی برآمدات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کی ہیں، عین اسی وقت یورپی یونین کے ممالک نے بھی توانائی کے حصول کے لئے نئے سپلائرز کی تلاش کی ہے۔

Griechenland l Öltanker im  Lakonischen Golfs l russischen Ölexporte von griechischen Tankern
یورپی یونین نے روسی تیل کی سمندر کے راستے ترسیل پر پابندی عائد کر رکھی ہےتصویر: Aristidis Vafeiadakis/Zumapress/picture-alliance

نوواک نے کہا کہ 2023ء میں کئی پابندیوں کے باوجود روسی توانائی کی صنعت ترقی کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ ان کے مطابق روسی تیل اور گیس کی آمدنی اس سال تقریباً نو ٹریلین روبل (98 بلین ڈالر) تک پہنچنے کا امکان ہے، جو روس اور یوکرین کے تنازعے سے قبل 2021ء میں ریکارڈ کی گئی سطح کے برابر ہے۔ تیل اور گیس کی صنعت روس کی مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) کا 27 فیصد ہے اورروسی زر مبادلہ کا 57 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔

روسی توانائی پالیسی کے سربراہ نے مزید کہا کہ وہ لاطینی امریکی ممالک، افریقی ممالک اور ایشیا بعید کے خطے کے ان دیگر ممالک کے توانائی کے خریداروں کے لیے بھی کھلے ہیں، جو روسی  تیل خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

م ق⁄ ش ر (اے ایف پی)

کیا روس پر پابندیاں غیر مؤثر ثابت ہو رہی ہیں؟