1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منڈیلا اکیسویں صدی کی تاریخ کی سب سے بڑی شخصیت تھی: اوباما

کشور مصطفیٰ10 دسمبر 2013

نسلی امتیاز کے خاتمے اور آزادی کی جدوجہد کی مثال سمجھے جانے والے جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر آنجہانی نیلسن منڈیلا کے اعزاز ميں آج جوہانسبرگ میں ایک شاندار دعائیہ تقریب کا انعقاد ہوا۔

https://p.dw.com/p/1AWGw
تصویر: Reuters

اس تقريب ميں دنیا بھر سے آئی ہوئی ہزاروں نامور شخصیات نے شرکت کی۔ جوہانسبرگ کے سب سے بڑے فُٹ بال اسٹیڈیم ایف این بی میں منعقد ہونے والی اس دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے ہزاروں افراد آج صبح ہی سے جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ شدید سردی اور بارش کے باوجود سیاہ فام افریقی لیڈر اور جنوبی افریقہ کے قومی ہیرو کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد منڈیلا کی نسل پرستی کے خلاف مہم کے ترانے کی موسیقی پر رقص کرتی نظر آ رہی تھی۔

نیلسن منڈیلا کے لیے منعقد ہونے والی اس دعائیہ تقریب کو گزشتہ چند سالوں میں عالمی رہنماؤں اور معروف شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ہونے والا سب سے بڑا اجتماع قرار دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ اس عظيم شخصیت کی زندگی بھر کی جدوجہد ہے۔ اس کے بارے میں جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کا کہنا ہے، ’’نیلسن منڈیلا آزادی اور مفاہمت کی مثال تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

یہ اسٹیڈیم سوکرسٹی کہلاتا ہے اور جوہانسبرگ کے مضافاتی علاقے سووتو میں قائم ہے۔ آخری بار نیلسن منڈیلا 2010 ء میں فٹبال کے عالمی کپ کی تقریب کے سلسلے میں اس اسٹیڈیم میں موجود تھے اور وہ کسی عوامی تقریب میں ان کی آخری مرتبہ شرکت تھی۔

Mandela Trauerfeier Johannesburg 10.12.2013
جوہانسبرگ کے مضافاتی علاقے سووتو میں قائم اسٹیڈیمتصویر: Reuters

جوہانسبرگ میں منڈیلا کی یاد میں منعقدہ دعائیہ تقریب میں درجنوں عالمی رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ ان میں امریکی صدر باراک اوباما اور جرمن صدر یواخم گاؤک بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون سمیت 90 عالمی رہنماؤں نے اس تقریب میں شرکت کی۔ اطلاعات کے مطابق اوباما اپنی اہلیہ میشل کے ہمراہ واشنگٹن سے ایک امریکی ایئر فورس کے طیارے میں 16 گھنٹوں کا سفر طے کر کے پریٹوریا کے نزدیک واٹر کلوف ایئر بیس پر اُترے۔ ان کے ساتھ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش اور ان کی اہلیہ لورا بُش بھی منڈیلا کی آخری رسومات میں حصہ لینے کے لیے پہنچیں ہیں جبکہ دو دیگر سابقہ امریکی صدور جٍمی کارٹر اور بِل کلنٹن بھی علیحدہ علیحدہ جوہانسبرگ پہنچے۔ اوباما کو آج کی اس تقریب میں خطاب کرنا تھا تاہم موسم کی خرابی کے سبب وہ ایک گھنٹے کی تاخیر سے اسٹیڈیم ایف این بی پہنچے۔ اس بڑے ہجوم سے خطاب میں اوباما نے کہا، ’’نیلسن منڈیلا سنگ مرمر کے کسی مجسمے کا نام نہیں، وہ گوشت پوست کا بنا ہوا ایک انسان تھا۔ ایک ایسے شخص کی تعریف بیان کرنا ناممکن ہے جس نے ایک پوری قوم کو انصاف دلوایا، جو 21 ویں صدی کی تاریخ کی سب سے بڑی شخصیت ہے۔‘‘ اوباما نے جنوبی افریقی عوام سے کہا کہ منڈیلا کی جدوجہد اُن کی جدوجہد ہے اور اُن کی جیت بھی دراصل اُن کی عوام کی جیت ہے۔

Mandela Trauerfeier Johannesburg 10.12.2013 Obama und Castro
منڈیلا کے لیے منعقدہ دعائیہ تقریب میں اوباما نے کاسٹرو سے مصحافہ کیاتصویر: Reuters

اس موقع پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا،"اس تقریب میں شریک مختلف نظریات اور سوچ کے حامل افراد کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ منڈیلا کی شخصیت اور اُن کا معاف کرنے کا جذبہ کس حد تک متاثر کُن تھا۔ منڈیلا نے امن کے حقیقی معنوں کو عملی جامہ پہنا کر دکھایا"۔ اس تقریب میں موجود برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ منڈیلا کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے موجود جنوبی افریقی باشندوں کی اتنی بڑی تعداد اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے ہیرو سے جدائی کا سوگ منا رہے ہیں لیکن دوسری جانب وہ مل کر منڈیلا کی زندگی اور اُن کی خدمات کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آزادی کی خوشی بھی منا رہے ہیں" ۔

صدر پاکستان ممنون حسین بھی منڈیلا کی دعائیہ تقریب میں شریک ہیں۔ نیلسن منڈیلا کو 15 دسمبر کو اُن کے آبائی علاقے کونو میں سُپرد خاک کیا جائے گا۔