1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
28 اپریل 2024

ایک طرف تنہائی سوچ پیدا کرتی ہے تو دوسری جانب یہ افسردگی کو جنم دیتی ہے۔ تنہائی کو کبھی فرد خود اختیار کرتا ہے۔ تو کبھی سوسائٹی اِس کو نافذ کر کے اُسے اکیلا کر دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4fEbj
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

مجھے تنہائی پسند ہے، کیونکہ تنہائی کی وجہ سے میں دُنیاوی شَوروغُل سے نجات پا کر سکون اور اطمینان سے غور و فکر کرتا ہوں، کبھی گزری ہوئی زندگی کی یادیں سامنے آتیں ہیں۔ یہ خوشگوار بھی ہیں اور اِن ہی میں نفرت و تعصّب سے گزرے لمحات بھی ہیں۔ انگریزی شاعر الیگزینڈر پوپ  نے کہا ہے! کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ہیں جنہیں کم علمی زندگی بھر کے لیے مطمئن رکھتی ہے۔ اگر علم کی طلب بڑھ جائے تو یہ علم ذہنی پریشانیوں کا باعث بھی ہوتا ہے اور فرد کو ذہنی اَذیّت میں بھی مُبتلا رکھتا ہے۔ کیونکہ علم فرسودہ روایات کو توڑتا ہے۔ پرانے عقائد کا خاتمہ کرتا ہے اور نئی راہیں نکال کر زندگی کے راستے کو طویل کر دیتا ہے۔ شاید یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ جیسے جیسے علم کی جستجو اور اُس کی قدروں کے بارے میں شک و شُبہات اُبھرتے گئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے پاؤں کے نیچے زمین دَھنس گئی ہے۔ جب کوئی فرد اِس مرحلے پر آ جائے تو تنہائی اُس کا ساتھی بن جاتی ہے۔ پھر وہ اپنی ذات ہی سے گفتگو کرتا ہے اور اپنے خیالات میں دوسروں کو شریک کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔

جب میں نے لِکھنا شروع کیا تو میری تحریروں میں خیالات کی تبدیلی کے مرحلے آتے رہے۔ ایک حَد تک تو لوگوں نے انہیں برداشت کیا لیکن اِس کا رَدِّعمل ہوا اور میرے خلاف لوگوں کی رائے قائم ہونا شروع ہوئی۔ تاریخ کا یہ اُصول رہا ہے کہ معاشرے کے حکمراں طبقے اپنے مُفادات اور مراعات کی خاطر سوسائٹی کے نظام کی تشکیل کرتے ہیں، اور پھر قانون، طاقت اور رَسم و رواج کے ذریعے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر کوئی ان روایات کو چیلنج کرے تو اُسے باغی اور غدّار سمجھا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اُس کی شخصیت کو بدنام کر کے سوسائٹی سے کاٹ دیا جائے۔ یہ رویّہ ایسا ہی ہے کہ جیسے مجرموں کو قید میں رکھا جاتا ہے۔ نفسیاتی مریضوں کو دماغی ہسپتال میں بَند کیا جاتا ہے۔ وہ بیمار جو متعدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اُنہیں ہسپتال میں رکھا جاتا ہے۔ وہ سیاستدان اور اَدیب جو مروجّہ نظام کو چیلنج کرتے ہیں، اُنہیں یا تو جیل میں رکھا جاتا ہے یا ہاؤس اَریسٹ کر دیا جاتا ہے، اور دوسروں سے مِلنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ دانشوروں پر اُن کی باغیانہ تحریروں کی وجہ سے مقدمے چلا کر اُنہیں خاموش کر دیا جاتا ہے۔

ریاست اور سوسائٹی کی جانب سے مجھ پر جو تنہائی عائد کی گئی اُس میں کوشش کی گئی ہے کہ لوگوں سے میرے رابطے ختم ہو جائیں۔ میری تحریریں شائع نہ ہونے پائیں مجھے کانفرنسوں اور اَدبی محفلوں میں نہ بلایا جائے۔ میرے خلاف اس قدر باتیں کیں گئیں کہ دانشور بھی مجھ سے بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔

میرے لیے یہ تنہائی کسی سنجیدہ غور و فِکر کا باعث نہیں ہے۔ میں اس اُلجھن کا شکار ہوں کہ زندگی کو کیسے بامقصد بنایا جائے۔ اُس کا حل میرے پاس یہی کہ مزید علم کی جُستجو کروں اور جو کچھ علمی معلومات حاصل ہوں۔ اُن میں دوسروں کو شریک کروں۔ اگرچہ میری علمی سرگرمیاں بڑی محدود ہو گئیں ہیں۔ کیونکہ جب کسی فرد کو سوسائٹی سے کاٹ دیا جاتا ہے تو اُس کی سوشل لائف ختم ہوجاتی ہے۔ سوشل لائف کسی بھی دانشور کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ وہ دوسرے ہم خیال دوستوں سے مِل کر بحث و مباحثہ کرتا ہے۔ معلومات اکٹھی کرتا ہے کہ کونسی نئی کتابیں چَھپی ہیں۔ خاص طور سے تاریخ کے مضمون میں کیا اضافے ہوئے ہیں۔ اگر کسی فرد کی سوشل لائف کا خاتمہ ہو جائے تو اُس کی سوچ بھی ایک جگہ ٹھہر جاتی ہے۔ خیالات میں تبدیلی اُسی وقت آتی ہے، جب بحث و مباحثہ ہو تنقید ہو۔ جس کی بنیاد پر اصلاح ہو سکے۔

میں نے زندگی بھر بحیثیت اُستاد کے طالبعلموں کو پڑھایا اور ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ نصاب کی کتابوں میں جو کچھ لِکھا ہے، خاص طور سے تاریخ کو جس طرح سے مسخ کیا گیا ہے، اُسے رَد کر کے بدلتے ہوئے نظریات کے تحت لیکچر دُوں۔ یہ میرا تجربہ رہا ہے کہ جب بھی میں نصاب سے ہٹ کر طالبعلموں کو پڑھایا تو اُن کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور شاید اُنہیں یہ محسوس ہوا ہو کہ وہ اندھیرے سے نکل کر اچانک روشنی میں آ گئے۔

میرے اِن نظریات کی وجہ سے عرصہ ہوا کہ مجھ پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند ہو گئے۔ اب میرے لیے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے یُوٹیوب چینل ہے، جسے میں استعمال کرتا ہوں۔ اپنے خیالات ریکارڈ کرواتا ہوں، اور اگر کوئی ہمت کر کے مجھے لیکچر کی دعوت دیتا ہے۔ تو میں اُس کو بھی پورا کرتا ہوں۔

لہٰذا ایک وہ تنہائی ہے، جو میری پسند کی ہے۔ یہ مجھے روشنی دیتی ہے۔ دوسری وہ تنہائی ہے، جس کا نفاذ ریاست اور سوسائٹی نے کیا ہے لیکن میں اس تنہائی میں بھی خود کو متحرک رکھتے ہوئے نہ صرف مزید علم کی جُستجو کرتا ہوں، بلکہ اپنے علم میں اپنے قارئین کو بھی شامل کرتا ہوں۔ یہ میرا وہ ورثہ ہے، جو میں چھوڑ کر جاؤں گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔