1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں غیر معیاری ادویات کا مسئلہ

عبدالستار، اسلام آباد
28 اپریل 2024

راولپنڈی میں ڈرگ کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے بعد ملک میں غیر معیاری ادویات کا مسئلہ دوبارہ اجاگر ہوا ہے۔ اور یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان میں غیر معیاری ادویات کا کیس منظر عام پر آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4fH0l
Illustration - Homöopathische Mittel
تصویر: Ingrid Balabanova/Zoonar/picture alliance

حال ہی میں راولپنڈی میں ایک ڈرگ کورٹ نے ایک بین الاقوامی دوا ساز کمپنی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر سمیت متعدد عہدیداران کو غیر معیاری ادویات سے متعلق کیس میں سزائیں سنائی ہیں۔

پاکستان میں بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں کے حوالے سے اس عدالتی فیصلے کو ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ GlaxoSmithKline (GSK) کے پاس پروڈکشن اور کوالٹی کنٹرول یونٹس ہونے کے باوجود اس کمپنی نے غیر معیاری ادویات مارکیٹ سے نہیں ہٹوائیں اور نہ ہی اس بات کی تحقیق کی کہ ان کی پروڈکشن کیسے ہوئی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ GlaxoSmithKline (GSK) کے پاس پروڈکشن اور کوالٹی کنٹرول یونٹس ہونے کے باوجود اس کمپنی نے غیر معیاری ادویات مارکیٹ سے نہیں ہٹوائیں اور نہ ہی اس بات کی تحقیق کی کہ ان کی پروڈکشن کیسے ہوئی
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ GlaxoSmithKline (GSK) کے پاس پروڈکشن اور کوالٹی کنٹرول یونٹس ہونے کے باوجود اس کمپنی نے غیر معیاری ادویات مارکیٹ سے نہیں ہٹوائیں اور نہ ہی اس بات کی تحقیق کی کہ ان کی پروڈکشن کیسے ہوئیتصویر: Reuters

عدالت نے اس کیس میں کمپنی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر کو سماعت کے اختتام تک قید کی سزا سناتے ہوئے ان پر سینتالیس لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ان کو تین ماہ کی قید کا سامنا ہوگا۔  

دوا ساز کمپنی نے اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

غیر معیاری ادویات کا مسئلہ نیا نہیں

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان میں غیر معیاری ادویات کا مسئلہ منظر عام پر آیا ہے۔

دسمبر 2012ء میں گجرانوالہ میں غیر معیاری شربت پینے کے باعث 15 افراد کی موت کی خبر سامنے آئی تھی۔ اسی برس پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں بھی 150 سے زائد مریض غیر معیاری ادویات کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے تھے۔ اور یہ پچھلے سال کی ہی بات ہے جب حکومت پنجاب نے کھانسی کے پانچ غیر معیاری شربتوں پر پابندی لگائی تھی۔

غیر معیاری ادویات کا اسکینڈل، عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

 مسئلے کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کی سنیٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے رکن عثمان خالد وحید نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد دوائیں غیر معیاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ''بہت ساری ایسی 'انڈر گراؤنڈ فیکٹریاں' بنی ہوئی ہیں جو ادویات بنا رہی ہیں، اور پنجاب کے موجودہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور جب فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی میں تھے تو انہوں نے اس طرح کی کچھ فیکٹریوں کے خلاف کارروائی بھی کی تھی۔‘‘

عثمان خالد وحید کے مطابق اس وقت ملک میں 621 دوا ساز کمپنیاں پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے رجسٹرڈ شدہ ہیں۔ ان کے مطابق یہ وہ کمپنیاں ہیں جو ''قوانین کا احترام کرتی ہیں"۔

ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبدالغفور شورو سے بھی بات کی، جن کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں غیر معیاری ادویات کی موجودگی کی ایک بڑی وجہ "کرپشن" بھی ہے۔

پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کی سنیٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے رکن عثمان خالد وحید نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد دوائیں غیر معیاری ہیں
پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کی سنیٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے رکن عثمان خالد وحید نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد دوائیں غیر معیاری ہیںتصویر: Farooq Naeem/AFP

انہوں نے مزید کہا، ”امریکہ میں رجسٹرڈ دواؤں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق  پانچ ہزار ہے، جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 80 ہزار کے قریب ہے۔‘‘ ڈاکٹر عبدالغفور شورو کے بقول، "پاکستان میں فارماسوٹیکل کمپنیاں ایسے کھلتی ہیں جیسے موبائل کی دکانیں۔ حالانکہ  جب کوئی نئی دوا لے کر آئے تو اس کے مشاہدے اور نتائج کو دیکھنے کے لیے اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں دواؤں کا رجسٹرڈ ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، جبکہ دواساز کمپنیاں بھی کوئی ریسرچ نہیں کرتیں۔‘‘

اس حوالے سے ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف کا کہنا ہے، '' غیر معیاری ادویات وہ ہوتی ہیں، جو مقررہ معیار پر پوری نہ اترتی ہوں۔ اس طرح کی دوائیں دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں اور ان سے نمٹنے کا ایک طریقہ  کارموجود ہے۔‘‘

عاصم رؤف کے مطابق ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ان غیر معیاری دواؤں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اصولوں کو پیش نظر رکھتی ہے۔ ''جب بھی کوئی غیر لائسنس یافتہ شخص یا اشخاص اس طرح کی دوائیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو انہیں فورا گرفتار کیا جاتا ہے اور قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔‘‘