1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یورپی یونین جاسوسی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟

25 اپریل 2024

گزشتہ کچھ عرصے میں یورپی پارلیمان اور یورپی یونین کے رکن ممالک میں غیر ملکی اثر و رسوخ کے متعدد اسکینڈلز سامنے آئے ہیں، جس کے بعد اس مسئلے کو جلد حل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4fBh6
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران یورپی پارلیمان اور یورپی یونین کے رکن ممالک میں غیر ملکی اثر و رسوخ کے متعدد اسکینڈلز سامنے آئے ہیں
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران یورپی پارلیمان اور یورپی یونین کے رکن ممالک میں غیر ملکی اثر و رسوخ کے متعدد اسکینڈلز سامنے آئے ہیںتصویر: McPHOTO/blickwinkel/picture alliance

گزشتہ کچھ عرصے کے دوران یورپی پارلیمان اور یورپی یونین کے رکن ممالک میں غیر ملکی اثر و رسوخ کے متعدد اسکینڈلز سامنے آئے ہیں، جن میں اکثر کیسز روس اور چین کے لیے مبینہ جاسوسی کے تھے۔ اب یورپ میں متعلقہ حکام جون میں ہونے والے یورپی پارلیمان کے الیکشن سے پہلے پہلے اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

غیر ملکی اثر و رسوخ کے ان اسکینڈلز کا سلسلہ 2022ء کے اواخر میں شروع ہوا تھا، جب یورپی پارلیمان کے ارکان اور ان کے عملے پر قطر، مراکش اور موریطانیہ سے رقوم لینے کا الزام لگایا گیا تھا۔

اسکینڈلز کے اس سلسلے میں تازہ ترین پیش رفت اسی ہفتے جرمنی میں ہوئی، جب ایک پبلک پراسیکیوٹر نے 'متبادل برائے جرمنی' یا اے ایف ڈی نامی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن میکسیملین کراہ کے ایک معاون کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ تفتیشی افسران کے مطابق میکسیملین کے معاون جیان جی چینی انٹیلجنس سروسز کے لیے کام کر رہے تھے۔

اے ایف ڈی نامی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن میکسیملین کراہ
اے ایف ڈی نامی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن میکسیملین کراہتصویر: Jean-Francois Badias/AP Photo/dpa/picture alliance

دوسری جانب جرمن اور چیک میڈیا رپورٹوں میں میکسیملین کراہ کے پیسوں کے عوض روس کی حمایت میں پیغامات پھیلانے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ تاہم میکسیملین کھا نے، جو روس اور چین کے ساتھ بہتر تعلقات پر زور دیتے رہے ہیں، اس بات کی تردید کی ہے۔

بدھ کو انہوں نے مزید کہا کہ جون میں ہونے والے یورپی پارلیمان کے انتخابات میں وہ اپنی پارٹی کے ایک اہم امیدوار ہوں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے جیان جی کو فوری طور پر نوکری سے نکالنے کا اعلان بھی کیا تھا، جب کہ جرمن حکام نے جیان جی کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا۔

اسکینڈلز کا یورپی عوام پر تاثر

یورپ میں پارلیمانی ارکان کو بھی بخوبی اندازہ ہے ان اسکینڈلز کا عام عوام پر کیا تاثر پڑ رہا ہوگا۔ اس حوالے سے گرین پارٹی کی ٹیری رائنٹکے نے، جو جون کے انتخابات کے لیے اپنی جماعت کے دو اہم امیدواروں میں سے ایک ہیں، ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران کہا، "اس پارلیمان کو اس بات کی وضاحت کرنے کی فوری طور پر ضرورت ہے کہ (اس معاملے میں) کیا ہوا ہے اور پھر اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی لینے کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے اس معاملے کی تحقیقات کو جون کے الیکشن سے پہلے مکمل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "یورپی شہریوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ بیلٹ پیپر پر کیا ہے۔‘‘

پارلیمان میں متوقع قرارداد

اس حوالے سے یورپی پارلیمان میں آج ایک قرارداد بھی متوقع ہے، جس میں روس اور یوکرین کی جنگ کی دوران پارلیمان کے ارکان کی روس کے حامی میڈیا ادارے 'وائس آف یورپ' کے ساتھ کام کرنے پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔

یورپی پارلیمان میں آج ایک قرارداد بھی متوقع ہے، جس میں روس اور یوکرین کی جنگ کی دوران پارلیمان کے ارکان کی روس کے حامی میڈیا ادارے 'وائس آف یورپ' کے ساتھ کام کرنے پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے
یورپی پارلیمان میں آج ایک قرارداد بھی متوقع ہے، جس میں روس اور یوکرین کی جنگ کی دوران پارلیمان کے ارکان کی روس کے حامی میڈیا ادارے 'وائس آف یورپ' کے ساتھ کام کرنے پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہےتصویر: Robin Utrecht/picture alliance

اس کے مسودے میں کہا گیا ہے، "روس نے اپنے غیر قانونی اور مجرمانہ اقدامات کو جائز بنانے کے لیے یورپی یونین کے اداروں سے منسلک اہم شخصیات کی حمایت حاصل کرنے کے مقصد سے منظم طریقے سے انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو کی جماعتوں، شخصیات اور تحریکوں کے ساتھ روابط قائم رکھے ہوئے ہیں۔"

مبینہ روسی جاسوسی پر تشویش

یورپ میں اس معاملے میں بالخصوص روس کے لیے مبینہ جاسوسی کے حوالے سے کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

سوئیڈش ڈیفنس ریسرچ ایجنسی نے اس سلسلے میں ان کیسز کا جائزہ لیا ہے، جن میں 2010ء اور 2021ء کے درمیان یورپی باشندوں کو جاسوسی کے الزامات میں سزائیں سنائی گئی تھیں۔ اس جائزے میں سامنے آیا ہے ان میں سے اکثر  افراد روس کے لیے کام کر رہے تھے۔

اسی طرح پولش انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل افئیرز سے منسلک ایلشبیاٹا  کا سا نے جنوری 2023ء میں ایک جائزے میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ روس اور یوکرین کی جنگ کی شروعات کے بعد سے سینکڑوں روسی سفارتکاروں کو یورپی ممالک سے بے دخل کیا جا چکا ہے، جن میں اکثر کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ روسی انٹیلجنس کے لیے کام کر رہے ہیں۔

ایلزبیتھا کاکا کا کہنا ہے یورپ میں مبینہ طور پر روسی انٹیلجنس کی سرگرمیاں ان ممالک میں زیادہ دیکھنے میں آئی ہیں جہاں بین الاقوامی اداروں کے ہیڈ کوارٹرز اور نیٹو کا انفرا اسٹرکچر موجود ہے۔

' وہ جمہوریت کا تسلسل توڑنا چاہتے ہیں'

پھر اس تناظر میں تو بیلجیم، جہاں یورپی یونین اور نیٹو کے زیادہ تر آفسز موجود ہیں، جاسوسی اداروں کے لیے نہایت اہم ہدف ہو سکتا ہے۔ اور غیر ملکی اثر و رسوخ سے متعلق اسکینڈلز کے بعد بیلجیم کے وزیر اعظم الیگزینڈر ڈی کرو نے بارہا اپنے ملک کی اس حوالے سے خاص ذمہ داری کی بات بھی کی ہے۔

پچھلے ہفتے ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے مزید کہا، "اس وقت یورپ بھر میں انتخابی عمل میں روس کی مداخلت جاری ہے۔ وہ یہاں جمہوریت کا تسلسل توڑنا چاہتے ہیں۔"

انہوں نے اور چیک ریپبلک کے وزیر اعظم پیٹر فیالا نے ایک مشترکہ خط میں اس بات پر زور بھی دیا ہے کہ بیرونی اثر و رسوخ کے حوالے سے نئی پابندیوں اور یورپی ممالک میں ہم آہنگی بڑھانے پر کام کیا جائے۔

یورپی پارلیمان کا ایک منظر
یورپی پارلیمان کا ایک منظرتصویر: Geert Vanden Wijngaert/AP/picture alliance

'پارلیمان اثر و رسوخ کے الزامات کو سنجیدگی سے لیتی ہے'

دوسری جانب اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو اپنے تحریری جواب میں یورپی پارلمیان کے ایک نمائندے نے نشاندہی کی کہ اس معاملے میں یورپی پارلیمان کا انحصار رکن ممالک کی تحقیقات پر ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "یورپی پارلیمان ان الزامات کو سنجیدگی سے لیتی ہے کہ یورپ میں سیاست دان روسی پروپگنڈا پھیلا رہے ہیں اور اس کے لیے کام کر رہے ہیں یا چین یہاں مداخلت کر رہا ہے۔"

لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے نک ایوسا نے ڈی ڈبلیو سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان کو نہیں لگتا کہ پورپی پارلیمان خود کو اس قسم کے اقدامات سے محفوظ رکھنے کی اپنی ذمی داری پوری کر پائے گی۔

(ایلا جوائنر) م ا ⁄ ک م